Mchoudhary

Add To collaction

کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری

قسط4


شاہزیب اور شہزین مایو کو لے جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔۔۔۔
جب سے مایو کو ہوس آیا تھا۔۔۔
جب سے ہی ان دونوں کی صرف ایک ہی ٹینشن تھی کہ مایو کو یہ لوگ ڈسچارج کرینگے۔۔۔۔۔۔۔
اس ہی مقصد سے شاہزیب صرفان سے ملنے آیا تھا۔۔۔۔۔
شاہزیب جب صرفان کے آفس میں گیا تو صرفان کسی سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔
صرفان شاہزیب کو دیکھ کر اسے بیٹھ نے کا اشارہ کرتے ہوئے پھر سے فون پر بات کرنے لگا۔۔۔۔۔۔
جب صرفان نے فون پر بات کر لی تو وہ شاہزیب کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
"شاہزیب تم یہاں۔۔۔۔۔؟
صرفان نے شاہزیب سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
"صرفان مجھے تم سے بات کرنی تھی۔۔۔
شاہزیب نے صرفان کے چہرے کو تکتے ہووے کہا۔۔۔۔۔
ہاں بولو شاہزیب!!!
صرفان نے شاہزیب کو بول نے کی اجازت دے دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرفان میں کہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔
کہ ہم مایو کو کب تک ہسپتال سے گھر لے جا سکتے ہیں؟؟؟؟؟
شاہزیب نے صرفان سے کہا۔۔۔۔۔۔
لیکن شاہزیب تم اپنی کزن کو اتنی جلدی گھر کیوں لے جانا چاہتے ہو ؟؟؟؟؟
جب کہ تم اچھے سے جانتے ہو کہ آپریشن کے بعد مریض کو بہت سی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
اور ویسے بھی تمہاری کزن کی حالت تو اور زیادہ کریٹیکل تھی۔۔۔۔۔
دو دن بعد ہوس آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے 
صرفان نے تشویش سے شاہزیب کو دیکھتے ہووے پوچھا۔۔۔۔۔۔
شیری یار تمہاری بات بلکل درست ہیں۔۔۔۔۔۔
لیکن بھائی چاہتے ہے کی ہم مایو کا باقی کا ٹریٹمنٹ حویلی ہی میں کروائے ۔۔
اور دادو بھی بہت پریشان ہے۔۔۔۔۔۔
اس لیے بھائی اسکو جلد از جلد گھر لے جانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب نے مکروہ سی مسکینیت چہرے پر سجھا کے صرفان سے کہا۔۔۔۔۔
اگر کوئی بھی شخص اُسکو دیکھ لیتا تو کوئی یہ نہیں بول سکتا تھا کی یہ شخص ڈراما کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!!!!
شاہزیب میں کر دیتا ہوں اسکو ڈسچارج۔۔۔۔۔۔
صرفان نے شاہزیب کی بات کو سمجھ تے ہووے شاہزیب کو بولا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!!!
کتنی دیر میں ہم گھر جا سکتے ہیں؟؟؟؟؟
شاہزیب نے پھر صرفان سے پوچھا۔۔۔۔
بس ابھی پانچ یہ دس منٹ میں تم جا سکتے ہو۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے!!!
تھنک یوں صرفان شاہزیب یہ بول کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
صرفان نے بھی جلدی جلدی سے اپنا بچا ہوا کام سمیٹا پھر ٹیبل پر سے اپنا فون  والٹ اٹھاکر باہر چلا گیا۔۔۔۔۔
***************************
شاہزیب نے شہزین کو آکر گھر جانے کی اطلاع دے دی تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اتنے خوش کبھی نہیں ہوئے تھے ۔۔ 
جتنے آج ہووے تھے۔۔۔۔۔۔
ہوتے بھی کیوں نہ؟؟؟؟؟
بھئی دونوں کی جان ایک عذاب سے جو چھوٹنے والی تھی ۔۔۔۔۔
بھائی میں آج بہت خوش ہوں!!!!!
شاہزیب خوش ہوتے ہوئے شہزین سے بولا۔۔۔۔۔
ہاں شاہزیب !!!
میں بھی بہت خوش ہوں۔۔۔۔
شہزین نے شاہزیب کی بات کی تائید کرتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔
بھائی مجھے اپنے خوش ہونے کی وجہ تو سمجھ آتی ہے۔۔۔۔
لیکن آپ کی وجہ نہیں سمجھ آئی شاہزیب آنکھوں میں شرارت لیے شہزین سے مزاقيہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
اور پوچھتا بھی کیوں نہ کبھی کبھی ہی تو ایسے موقع ہاتھ آتے تھے۔۔۔۔۔۔
جب شہزین سے مذاق کرنے کا موقع ہاتھ لگتا تھا۔۔۔
شاہزیب!!!!!
شہزین نے شاہزیب کو گھورتے ہوئے پُکارا۔۔۔۔۔۔
اوک ...
اوک۔۔۔۔۔۔۔۔!
بھائی اب نہیں پوچھتا۔۔۔۔۔
شاہزیب ڈرنے کی ایکٹنگ کر تے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اور سوچنا بھی مت ۔۔۔۔۔۔۔
اب جاؤ اُس مہارانی کو لے کر جلدی سے پارکنگ میں آ جانا ۔۔۔۔۔ 
میں تمہیں پارکنگ ایریا میں ہی ملوں گا۔۔۔۔ 
شہزین نے شاہزیب سے کہا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔۔
میں آتا ہوں۔۔۔۔۔۔
شاہزیب یہ بول کر وہاں سے مایو کو لینے چلا گیا۔۔۔۔۔
*******************
عالیان شاہ کی ہر ممکن کوشش تھی کہ وہ کیسے بھی کر کے مایو کے پاس چلا جائے ۔۔۔ 
لیکن افسوس !!!!!
وہ بس ایسا سوچ ہی سکتا تھا ۔۔۔۔۔ 
اور اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
سوائے دعاؤں کے!!!!!
ابھی وہ جائے نماز پر بیٹھا زارو قطار رو رہا تھا۔۔۔۔۔
ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھائے اپنے رب کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔۔
یا رب_!!!!
میں ایک کھلونا مٹی کا_!
تیرے کن سے جو تخلیق ہوا_!
تیرے کرم نے زی روح کیا مجھے_!
تیرے حُکم سے سانسیں چلتی ہیں_!
تیرے ہی فضل سے ہستی قائم ہیں_!!
تو ہی اوّل تو ہی آخر ہیں_!!!
تو ہی ظاہر تو ہی باطن ہیں_!
ایک اور کرم فرما میرے مولا_!
میری زندگی کی باقی سانسیں ہے اُسے بھی اس کے نصیب میں لکھ دے_!
میرے مولا اسکو صحت یاب کر دے_!
اے اللہ تونے آج تک مجھے میرے مانگنے سے پہلے آتا فرمایا ہیں_!!
یا اللّٰہ_ !!!! 
آج یہ بکھاری تجھ سے اپنی جھولی پھیلا کر مانگتا ہے_!
اے میرے اللّٰہ مایشا کو بلکل ٹھیک کر دے _!
اُسّے موت زندگی کی کشمکش سے باہر نکال کر اُسے زندگی عطا فرما دے_!!!!
آمین__!
عالیان نے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جائے نماز سے کھڑا ہوکر اپنے روم کی کھڑکی پر آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔
اُسے اپنے اللّہ کے سامنے رو رو کر دعائیں مانگ نے سے ایک سکون سا اپنے وجود میں سرایت کرتا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ 
لندن میں دسمبر کی یخ بستی شاموں میں ٹھنڈ وجود کو چیر کر گزر رہی تھی۔۔۔۔۔
سورج اپنے ڈوبنے کی پوری پوری تیاری میں تھا آسمان بلکل لال اور نیلا پیلا ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے سورج بھی اُسکے اُداسی میں آدھے کا شریک ہے۔۔۔۔
آسمان میں اڑتے پرندے اپنے آشیانوں میں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔۔۔۔۔
اور وہ اس اُداس شام میں ٹھنڈائی چلتی ہوا میں
سویٹر سے بے نیاز صرف ایک ہی سوچ میں محو تھا۔۔۔۔۔
مائشا اب کیسی ہوگی؟؟؟
اسکو اگر بلڈ کی ضرورت پڑ گئی تو؟؟
کہاں سے آئیگا بلڈ؟؟
پوری حویلی کے رہنے والے مکینوں میں سے صرف میرے ہی بلڈ سے اُسکا بلڈ میچ کرتا ہے۔۔۔۔۔
وہ ٹھیک بھی ہو جائیگی یہ نہیں؟؟
وہ یہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
جس نے اس پوری کائنات کو بنایا ہے۔۔۔۔۔۔
اس ہی رب نے اس کائنات میں رہ نے والے ہر ایک زی روح کا وعدہ بھی اس خلق ع خدا نے ہی لیا ہیں۔۔۔۔۔
وہ کبھی اپنے بندوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔
نہ کبھی بھولتا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ انسان کی ہی تو فطرت میں شامل ہوتا ہے۔۔۔۔ جو ہمیشہ لے کر بھول جاتا ہے۔۔۔۔۔
اپنے سے بڑا کسی کو نہیں سمجھتا !!!! 
تبھی اُسکے موبائل پر میسیج آیا ۔۔۔۔۔
وہ اپنی سوچوں کی مجھدار سے نکلتا ہوا موبائل کے پاس گیا۔۔۔۔۔
اُسنے موبائل اٹھا کر دیکھا تو پانچ پندرہ پر نور کے میسجز تھے۔۔۔۔
عالیان نے میسجز اوپن کرتے ہووے اُنہیں پڑھنا شروع کے دیا۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم عالیان۔۔۔۔
کیسے ہو؟؟
یہاں پر اب سب ٹھیک ہے۔۔۔۔
میں نے آپکو کال کی تھی شاید آپ مصروف تھے۔۔۔
اس لیے میں نے آپکو میسیج کر کے بتا رہی ہوں۔۔۔
مایو اب اللّٰہ کے کرم سے بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
آج وہ ڈسچارج ہو کر حویلی آ رہی ہیں۔۔۔۔۔
آپکی كذن 
نور حسن شاہ!!
عالیان کو میسیج پڑھ کر ایک سکون ہو گیا تھا۔۔۔
اُسکی دعا اُس سوہنے رب نے سُن لی تھی۔۔۔۔۔
بے شک تو بڑا رحیم ہیں__!
عالیان نے آسمان کی طرف چہرا اٹھا کر اللہ کا شكر ادا کیا۔۔۔۔۔
اور نور کو میسیج بھیج کر تیار ہونے اپنے روم میں چلا گیا ۔۔۔
**************************
شاہ حویلی۔۔۔۔۔۔۔۔

دادو دادو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
نور چلاتی ہوئی دادو کے روم میں آئی۔۔۔
دادو جو عشا کی نماز کی تیاری میں تھی ۔۔۔۔۔۔
نور کے ایسے چلّا نے پر بولی۔۔۔۔۔
کیا ہوا نور بچہ؟؟؟؟
اتنی رات کو ایسے کیوں چلّا رہی ہو؟؟؟
دادو میری پیاری دادو نور رکسانا بیگم (دادو ) کے گلے میں باہیں پھیلاتی ہوئی پیار سے بولی۔۔۔۔
دادو ابھی اتنی رات نہیں ہوئی
ابھی تو صرف رات کے پونے گیارہ ہو رہے ہیں ۔۔
اور میں اس لیے چلّا رہی ہوں۔۔۔
کیونکہ __! 
دادو آج مایو ہسپتال سے گھر آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔
ابھی شاہزیب کی کال آئی تھی۔۔۔۔۔۔
سچ !
دادو خوش ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں دادو نور نے بھی دادو کے ہی انداز میں جواب دیا۔۔۔
دادو خوش ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔۔
نور بچّے ذرا میری جائے نماز دے نہ میں نوافل پڑھ لو۔۔۔۔۔
ہاں دادو میں ابھی لائی ۔۔۔۔
نور جب دادو کی جائے نماز ورڈ روب میں سے نکال رہی تھی اُسکے موبائل پر میسیج ٹون بجی۔۔۔۔۔
نور نے دادو کو جائے ناز دے کر دادو کے جڑے روم کے ٹیرس پر آ کر موبائل پر آنے والے میسج کو کھولا۔۔۔۔۔
جس میں عالیان شاہ جگ مگا رہا تھا۔۔۔۔
اُسنے میسیج کو اوپن کیا اور پڑھنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام نور__!
الحمدللہ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
اور اپنے جو وقت وقت پر مایو کی طبیعت کی اطلاع دی اُسکے لیے بھی تھنک یوں__!
میں تمہارا یہ احسان کبھی نہیں اتار سکتا۔۔۔۔۔
جو آج تم نے مجھے خوشی دی ہے۔۔۔۔
یہ بتا کر کہ مایو اب بلکل ٹھیک ہے۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ _____!
عالیان ملک شاہ۔۔۔۔۔۔
نور کے ہونٹوں پر میسیج کو دیکھ کر مسکراہٹ نے احاطہ کر لیا۔۔۔۔
نور حسن شاہ نے زندگی میں آج پہلی بار عالیان کو بھائی نہیں بولا اور نہیں لکھا تھا ۔۔۔۔۔
لیکن وہ بھی ابھی کُچّھ سمجھ نے سے قاصر تھی۔۔۔۔۔
کہ اُسنے عالیان کو کیوں بھائی نہیں بولا۔۔۔
نور حسن شاہ جو مائشا کی ہم عمر تھی ۔۔۔۔کٹھائی موٹی موٹی آنکھوں , کندھوں تک آتے سنہری بال, چھوٹی سی ناک اور گول چہرا وہ گندنمی سے رنگ والی خوش مزاج سی رہنے والی شہزادی تھی۔۔۔۔۔
ہاں ____!
وہ اپنے بابا کی شہزادی ہی تو تھی۔۔۔۔
وہ اگر زیادہ بولتی نہیں تھی تو وہ مغرور بلکل بھی نہیں تھی ____!
نور ٹیرس پر کھڑی ہوکر یہاں وہاں نظر دوڑائیں جا رہی تھی۔۔۔۔
ہونٹوں پر مسکراہٹ اب بھی موجود تھی۔۔۔۔
میں کیوں اتنی مسکرائے جا رہی ہو ؟؟؟؟
نور نے اپنے دل سے سوال کیا۔۔۔۔۔
دل سے جواب ملا شاید تمہیں کوئی اچھا لگ آگیا ہے____'!
لیکن کون؟؟
نور نے حیران ہوتے ہوے پھر سے سوال کیا دل سے۔۔۔۔۔
عالیان ملک شاہ______!! 
دل نے ایک دم خوش ہوتے ہوئے نور کے سوال کاجواب دیا ۔۔۔۔۔
نور کی دھڑکن نے ترتیب ہونے لگی عالیان کے نام پر۔۔۔۔۔
لیکن آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا؟؟؟؟؟
نور نے اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہووے دل سے سوال کیا۔۔۔۔۔
ہاں تو___!
آج سے پہلے یہ جذبہ بھی تو تمہیں کبھی نہیں محسوس ہوا؟؟؟؟
دل نے جواب کے بجائے سوال ہی کیا نور سے۔۔۔۔
کون سا جذبہ؟؟؟؟؟
نور نےانجان بنتے ہوئے دل سے پوچھا۔۔۔
جو تمہارے ہونٹوں پر مسکان لایا ہیں ۔۔۔
جو تمہاری زبان سے بھائی بولنے سے گریز کروا رہا ہے۔۔۔۔۔
جو تمہیں عالیان ملک شاہ کے نام پر یہ دل بے ترتیب ہو رہا ہے۔۔۔
یہ ہی تو وہ جزبہ ہے ۔۔۔
دل نے نور کو سمجھا نے کی کوشش کی۔۔۔۔
نہیں میں کیوں گریز کرونگی بھلا۔۔۔۔
بھائی بولنے میں۔۔۔۔۔
نور نے اپنے آپ سے ہی نظریں چراتے ہوئے دل سے کہا۔۔۔۔۔۔
تو پھر تم نے آج عالیان کو بھائی کیوں نہیں بولا_____؟
دل نے پھر سے نور کو باور کرانا ضروری سمجھا۔۔۔۔
تم کیوں نہیں مان لیتی نور کی تم بھی اس پاکیزہ جذبہ سے روشناس ہو چکی ہو____؟
نور نے اپنے دل کے آگے جھکتے ہووے آخر کار ہار مان ہی لی۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی وقت نہیں لگایا۔۔۔۔۔
کہ نور حسن شاہ آج عالیان ملک شاہ سے محبّت کرنے لگی ہے۔۔۔۔۔
اور یہ جذبہ بہت خوش کن تھا ۔۔۔۔۔
نور کے ہونٹوں پر سے بلکل بھی مسکراہٹ غائب نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کون جانتا ہے محبّت نور کو راس آئے گی بھی یا صرف ایک طرفہ ہی محبّت بن کر رہ جائےگی ۔۔۔۔
********************
منہال کو پارکنگ اریہ میں دس منٹ سے بھی زیادہ وقت ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔
لیکن صرفان ہسپتال سے باہر نکل نے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔
منہال غصے سے اپنی کار کا گیٹ کھولنے ہی والا تھا جب اُسّے شہزین پارکنگ اریہ میں ہی آتا ہوا نظر آیا۔۔۔۔۔
اور اُسکے پیچھے شاہزیب اور کوئی لڑکی اور تھی۔۔۔۔
جسے نرس نے تھاما ہوا تھا۔۔۔۔۔
منہال غور سے اُس لڑکی کو دیکھ نے لگا ۔۔۔۔۔۔
دھوپ جیسا چمکتا چہرا کھڑی ناک ہری کانچ سی کٹیلی آنکھیں، سراہی دار پتلی سی گردن،  پتلی سی نازک سے وہ کانچ سے لڑکی اگر کوئی اُسے ایک بار دیکھتا تو اپنے نظریں نہ ہٹا پاتا۔۔۔۔
وہ ابھی بھی حجاب میں ہی تھی۔۔۔۔۔ 
اور اس رف سے حلیے میں بھی وہ کسی کا بھی دل دھڑکا سکتی تھی۔۔۔۔۔۔
منہال اُس معصوم سی گلاب سی پنکھڑیوں جیسی لڑکی کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ اب کار میں بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔
منہال کے دل نے ایک ننھی سی خواہش کی کاش یہ لڑکی نہ جائے ۔۔۔۔۔
لیکن افسوس یہ کاش ہمیشہ کاش ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔۔
منہال صرف سوچتا ہی رہ گیا۔۔۔۔۔
اور وہ لڑکی آنکھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے اوجھل ہو گی۔۔۔۔۔
دل کبھی کرتا ہیں ننھی سی خواہش۔
پر یہ نداں سمجھتا کیوں نہیں کہ۔۔۔
ہر ایک خواہش پوری نہیں ہوا کرتی۔۔۔
ملیحہ چودھری
منہال اپنی سوچ کے بھنورے میں اس قدر مہو تھا کی اُسے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔۔۔۔۔
کہ۔۔۔۔۔۔
صرفان کب آیا_____؟
کب کار میں بیٹھا_______؟
جب صرفان کو آئے ہوئے پانچ منٹ سے زیادہ وقت گزر گیا لیکن منہال صاحب اپنے سوچ کے بھنور میں سے نکل نے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔
آ ہم م م......
صرفان نے گلا خانکھارتے ہووے منہال کے چہرے کے آگے اپنا ہاتھ لہرایا۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ بھی بیکار تھا۔۔۔۔
کیونکہ ہمارے منہال صاحب کُچّھ سوچ کے بھنور کی زیادہ ہی گہرائی میں پہنچ گئے تھے۔۔۔۔۔۔
اوہ ہ ہ ہ ہ...........
بھائی___________!!
اب نکل بھی آ اس گہرائی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرفان نے چلاتے ہووے منہال کو ہلایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہال جو اپنی سوچ میں مہو تھا ایسے صرفان کے چلانے اور ہلانے پر صرفان کو اپنی گھوریوں سے نوازتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تم کب آئے_____؟؟؟؟؟
اور مجھے کیوں پریشان کر رہے ہو_____؟
منہال نے غصّے میں صرفان سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صرفان ۔۔۔۔
صرفان تو منہال کی گھوریوں کو اور اُسکے الزام کو دیکھ اور سن کر ہی اُسکا منہ ہی کھل گیا۔۔۔۔
منہال تو ہوش میں تو ہے۔۔۔۔۔
میں نے تُجھے کب پریشان کیا__؟
ہاں۔۔۔۔
میں یہاں پر ایک گھنٹے سے تیرا انتظار کر رہا ہوں۔۔
کہ۔۔۔۔
کب تو اپنی اس بیکار کی سوچ سے باہر نکلے گا__؟
پر نہیں تو اور تیری یہ سوچے جس کا نہ تو کبھی فل اسٹوپ لگا ہے۔۔۔۔۔
اور نہ کبھی لگے گا۔۔۔
صرفان نے بھی منہال کے ہی انداز میں اسکو جواب دیا۔۔۔۔۔
جب اُسے لگا کہ اس سامنے بیٹھے ہووے پتھّر کے شخص پر کچھ اثر نہیں پڑنے والا۔۔۔۔
تو ایک لمبی سانس کھینچ کر پھر دوبارہ بولا۔۔۔
بس_____!
ہم بیچاروں کا ہی نکسان کرتی ہیں یہ تیری سوچے۔۔۔۔۔۔۔
صرفان خود سے ہی بڑ بڑا تے ہوئے بولا۔۔۔۔
کیا کہا تونے __؟
منہال نے صرفان کو گھورتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔
نہیں _____!
کچھ بھی تو نہیں______!
صرفان پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے اپنی جان بچانے کو بولا۔۔۔۔۔
ہاں میں تو صرف یہ بول راہا تھا کہ اب چلوں۔۔۔۔
رات کے پونے گیارہ ہو رہے ہیں۔۔۔۔
پھر گھر بھی تو جانا ہے۔۔۔۔۔
منہال نے سيرفاں کی بات کی تائید کرتے ہوئے کار سٹارٹ کر دی۔۔۔۔۔۔
اور ہسپتال سے باہر نکال لی۔۔۔۔۔۔
وہ ابھی کچھ ہی دور چلے تھے ۔۔۔۔۔۔
جب صرفان بولا۔۔۔۔۔۔
اوہ شٹ۔۔۔۔
میں تو شاہزیب کو اُسکی بابا کی رپورٹ دینی ہی بھول گیا ۔۔۔۔۔ 
صرفان نے جلدی سے شاہزیب پر کال ملائی جو دوسری طرف سے اٹھا لی گئی ۔۔۔۔۔
ہیلو !!!!
شاہو انکل کی رپورٹ تو میرے ہی پاس رہ گئی ہے۔۔۔۔
تو اب کہا پر ہے____؟
صرفان نے سلام کرتے ہوئے شاہزیب سے پوچھا۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے شاہزیب صرفان کی سلام کا جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔
شیری ہم تو RFR ریسٹورینٹ سے تھوڑا ہی پیچھے ہے ۔۔۔۔۔
اچھا____!
تو تم ہمیں RFR کے باہر ملوں ہم تمہیں وہیں پر ملتے ہیں۔۔۔۔
صرفان نے کُچّھ سوچتے ہوئے شاہزیب سے کہا۔۔۔۔
ٹھیک ہے___!
شاہزیب نے یہ بول کر کال کٹ کر دی۔۔۔۔۔۔۔
صرفان منہال کی طرف دیکھ کر بولا ۔۔۔۔۔
منہال یار تم RFR چلو۔۔۔
ااوک__!
منہال کار ڈرائیو کرتے ہوئے صرفان کی طرف دیکھتے ہوئے یہ بول کر کار کی سپیڈ بڑھا دی۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ دونوں RFR کی پارکنگ ایریا میں تھے۔۔۔۔۔۔
صرفان اپنی پاکٹ سے موبائل نکالتے ہووے شاہزیب کو کال ملائی جو دو تین بیل کے بعد اٹھا لی گئی تھی۔۔۔۔۔۔
ہیلو شاہزیب تم لوگ کہاں پر ہو_____؟؟؟
صرفان نے یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے شاہزیب سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے شاہزیب بولا ۔۔۔۔۔
ہاں صرفان ہم فیملی کیبن میں ہے تم یہیں پر آ جاؤ ۔۔۔۔۔۔اوکے صرفان نے یہ بول کر کال کاٹ دی ۔۔۔۔۔
اور دونوں نے فیملی کیبن کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ لوگ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئے تو صرفان نے ہاتھ کے اشارے سے شاہزیب کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہاتھ ہلایا۔۔۔۔۔
شاہزیب نّے بھی ہاتھ ہلاکر صرفان اور منہال کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ 
صرفان وہیں پر چلا گیا۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم__!
صرفان اور منہال دونوں نے ایک ساتھ سلام کی۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام____!
شہزین اور شاہزیب نے بھی اُن دونوں کی سلام کا جواب دے تے ہوئے ان دونوں کو بیٹھ نے کا اشارہ کیا۔۔۔۔۔۔
تھینک یو_______!
دونوں یہ بولتے ہوے چیئر کو تھوڑا پیچھے کرتے ہوئے بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا لوگے ___؟؟
کافی یا چائے۔۔۔۔۔۔۔۔
تھینک یو ___!
بٹ بھائی اب فلہال کُچّھ بھی نہیں صرفان جلدی سے بولا۔۔۔۔۔
اس بیچ منہال بلکل خاموش بیٹھا تھا۔۔۔۔
بس تھوڑی نظریں جھکائے کن آنکھوں سے مائشا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ چاہ کر بھی اس لڑکی سے نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ان سب کے بیچ مائشا کو بہت عجیب سا فیل ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ 
وہ گم سم سی بیٹھی اُن سب کی باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔
جب اُسے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
اُسنے تھوڑی سی نظریں اٹھا کر جیسے ہی دیکھا منہال نے اپنی نظروں کا زاویہ بدل لیا ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے کیسے جانے دے ۔۔۔۔۔۔۔ 
آپ لوگ اتنی دور سے آئے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اور وہ بھی ہمارے ہی کام سے بھائ ہمراہ فرض بنتا ہے۔۔۔۔۔
اوک بھائی______!! 
آپ لوگ اتنا بول رہے ہیں تو اونلی کافی اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
صرفان ہار مانتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے___!!!!!
شہزین نے صرفان کو یہ کہتے ہوئے ویٹر کو پانچ کافی لانے کو کہا۔۔۔۔۔۔
اور پھر ان دونوں کی طرف متوجہ ہوتے ہووے صرفان سے منہال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔
شیری تم اپنے دوست سے نہیں ملواؤگے۔۔۔۔۔۔
کیوں نہیں بھائی__!
افکارس یہ بھی پوچھنے والی بات ہے۔۔۔۔۔۔
بھائی یہ میرا كزن پلس میرا جگری دوست منہال سلمان احسان شاہ جو آج کل فلم انڈسٹریز کے کنگ( MS) بھی ہیں اور (AS ) انڈسٹریز کے ایک لوٹے وارث بھی۔۔۔۔۔۔
اور منہال یہ شاہزیب کے بڑے بھائی شہزین ملک شاہ__!
جو آج کل شاہ انڈسٹریز کو یہی سنبھال رہے ہیں۔۔۔
کیونکہ ان کے دادو جان تو بہت سالوں سے امریکہ میں ہے۔۔۔
اور یہ ہیں ان کی كزن مائشا کمال احسان شاہ ہے۔۔۔۔۔
صرفان ان سب کا آپس میں انٹروڈیوس کرواتے ہوئے بولا۔۔۔۔
منہال نے ان سب پر زیادہ توجہ نہیں دی۔۔۔۔۔
صرف ایک شخص کے علاوہ اور وہ تھی مائشا کمال احسان شاہ ۔۔۔۔۔۔
جو منہال کے لیے جلد ہی ایک آزمائش بن نے والی تھی۔۔۔۔
منہال سلمان شاہ۔۔۔۔۔
جس کو کافی عرصے پہلے محبّت اور عورت کے ہی وجود سے نفرت ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
نہ جانے وہیں منہال سلمان شاہ کو اس لڑکی میں کیا نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
جو چاہ کر بھی اپنے دل کو سمجھا نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
جب تک ویٹر بھی کافی لیکر آ گیا تھا۔۔۔۔
بھائی ____!
شاہزیب نے سرگوشیاں کے انداز میں شہزین کو پُکارا۔۔۔۔۔
ہاں______!!
شہزین نے گردن کو تھوڑا سا شاہزیب کے قریب کرتے ہووے بولا ۔۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے یہ کس کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔
شاہزیب شہزین سے بولا۔۔۔۔
نہیں_____!
شہزین نہ سمجھ تے ہووے شاہزیب کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔۔ 
بھائی یہ سلمان شاہ کا بیٹا ہے۔۔۔۔۔۔
جن کی کمپنی سے ہمیں نیا کنٹریکٹ ملا ہے۔۔۔۔۔
اور نیکسٹ منٹھ میٹنگ بھی ہے ان کے ہمارے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
اور آپ کو پتہ ہے ۔۔۔۔۔۔
میٹنگ بھی اُن کی بیٹی یانی منہال کی چھوٹی سسٹر کے ساتھ ہے۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ یانی منہال تو آج کل اپنی نیو فلم کی شوٹنگ میں مصروف ہے۔۔۔۔
جس کو آج کل میں ہینڈل کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب شہزین کو ڈیٹیلس سے سمجھاتے ہووے بتایا۔۔۔۔۔۔
اچھا_____!
شہزین نے شاہزیب کی بات کو سمجھتے ہوئے جواب دیا اور پھر منہال کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
تجھے کیسے پتہ اس سب کے بارے میں_____؟
شہزین نے شاہزیب کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
بھائی ____!!
آپ مجھے ایسے مت دیکھے۔۔۔۔۔۔
میں بتا تا ہوں کہ مجھے کیسے پتہ چلا____؟؟
دراصل آج صبح شاہزیب نے شہزین کو منہال سے ہونے والی ملاقات کا بتاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اس لیے بھائی مجھے پہلے تو تھوڑا تھوڑا شک تھا لیکن میں نے کسی دوست سے انفارمیشن لی تھی تو بس اس نے ہی بتایا مجھے۔۔۔۔۔۔۔
شاہزیب شہزین سے شرگوشی کے انداز میں بتایا۔۔۔۔۔
وہ ابھی باتیں ہی کر رہے تھے۔۔۔۔۔
جب منہال کے موبائل کی رنگ ٹون نے ان سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔۔۔
ٹن ٹنا ٹن..... 
وہ .........
ٹن ٹنا ٹن......... 
منہال اُن سب سے معازرت کرتے ہوئے وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ریسٹورینٹ سے باہر نکل تا چلا گیا۔۔۔۔۔
کیونکہ اندر کافی شور تھا۔۔۔۔۔۔
جب وہ باہر گراؤنڈ میں آ گیا تو اس نے کال اٹینڈ کی۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف اُسکی ماما تھی ۔۔۔۔
السلام وعلیکم ماما_____!!
منہال نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے اپنی ماما کو سلام کی۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے منہال کی ماما منہال سے شقوا کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ماما کی جان ______!
بیٹا آپ بنا بتائے ہی چلے گئے شوٹنگ پر۔۔۔۔۔ 
نہیں ماما میں نے گڑیا کو بتایا تھا۔۔۔۔۔۔
اور آپ شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔۔۔۔۔۔
اور ویسے بھی ماما آج میری شوٹنگ کینسل ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔
اس لیے میں اور آپکا بھتیزے صاحب ایک ساتھ ہی ہے۔۔۔۔۔
منہال اپنی ماما کی شقواں ختم کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ 
اچّھا بیٹا۔۔۔۔۔
آپ ایک کام کرنا صرفان کو لے کر گھر آؤ ساتھ میں ہی ڈنر کرتے ہے۔۔۔۔۔۔
منہال کی ماما نے منہال سے کہا۔۔۔۔۔۔
اوک ماما بس ہم ابھی ایک گھنٹے تک آتے ہیں۔۔۔۔
اللہ حافظ ماما ۔۔۔۔
منہال نے یہ بول کر کال کات دی۔۔۔۔
ریسٹورینٹ کے اندر جانے لگا۔۔۔۔۔
تبھی اُسکی ٹکّر مائشا سے ہوئی۔۔۔۔۔
جو بنا دیکھے سیدھی آ رہی تھی اتنی جور سے ٹکّر لگنے کے بعد گرتی ہوئی نیچے گرنے ہی والی تھی۔۔۔۔
جب منہال نے اُسکا بازو پکڑ کے اپنی طرف خیچا۔۔۔
جسکی وجہ سےمائشا منہال کے سینے سے آ کر ٹکرائی ۔۔۔۔۔ 
آہ ہ ہ ہ.........__!
مائشا درد کی وجہ سے بے اختیار کرّہ اٹھی۔۔۔۔۔۔۔
مائشا کے اس طرح کرّہ نے سے منہال نے مائشا کو خود سے دور کرتے ہووے فقرمندی سے پوچھا۔۔۔۔۔
مائشا ا آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔۔۔۔۔
مائشا جو اپنے سر میں اٹھنے والی ٹیس کی وجہ سے سر کو چھوتے ہوئے آنکھیں بند کی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
منہال کے منہ سے اپنا نام سن کر جھٹکے سے آنکھیں کھولی۔۔۔۔۔
آپ ک کون ہیں________؟ 
اور آ آپ میرا نام کیسے جانتے ہیں____؟؟؟؟
مائشا نے ڈرتے ہووے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہووے منہال سے پوچھا۔۔۔۔۔
اور منہال تو مائشا کے ایسا پوچھ نے سے ہی منہ کھول گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اں ں 
کیا پوچھ رہی ہیں آپ_____؟
منہال نے مائشا کے سوال کے جواب کے بجائے سوال ہی کیا تھا۔۔۔۔۔۔
ارے میں تمہارے صرفان بھائی کا دوست ۔۔۔۔۔۔
جس نے ابھی اندر اپنا تعارف بہ آواز بلند کروایا تھا۔۔۔۔
منہال نے مائشا کی دماغ پر افسوس کرتے ہووے مائشا کو یاد کروایا۔۔۔۔۔
محترمہ کہا کھوئی ہوئی تھی آپ_____؟
اس بار منہال نے مائشا کا نام لینے سے گریز کی تھی۔۔۔۔۔
کیونکہ۔۔۔۔۔
وہ مائشا کا ڈر اُسکے چہرے سے بخوبی جان گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آ آپ ہٹیے مجھے جانے دے۔۔۔۔۔۔
میں نہیں جانتی آپ کو۔۔۔۔۔۔
مائشا منہال کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے منہال سے بولی۔۔۔۔۔۔
محترمہ میں ہٹ جاؤنگا ۔۔۔۔۔
لیکن آپ اتنی ڈری سہمی سی کیوں ہے_______؟
منہال نے مائشا سے پھر سوال کیا۔۔۔۔
جس کو مائشا ایک دم فراموش کرتی ہوئی سائڈ سے نکل گئی۔۔۔۔۔
محترمہ۔۔۔۔
ارے سنیے۔۔۔۔۔
محترمہ سنے تو_____!
منہال مائشا کو آواز دیتا ہی رہ گیا ۔۔۔۔۔
لیکن مجال ہے جو اس چھوٹی سی چھوئی موئی سی لڑکی نے ایک بار بھی پیچھے موڑ کر دیکھا ہو۔۔۔۔
منہال نے مائشا کو آواز دینے کا ارادہ ترک کر تے ہوئے وہاں سے جانے لگا جب اُسکی نظر نیچے زمین پر گئی ۔۔۔۔۔۔
جہاں پر شاید کوئی جویلری تھی۔۔۔۔۔۔۔
منہال نے نیچے جھک کر اس جویلری کو اٹھایا۔۔۔۔۔
اور اسکو آگے پیچھے سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ اسکو غور سے دیکھ ہی رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
جب اُسکے دماغ میں جھموکا ہوا۔۔۔۔
یہ تو مائشا کی ہیں۔۔۔۔
جب منہال اندر ریسٹورانٹ میں بیٹھ کر مائشا پر ایک نظر ڈالی ہی تھی تب دیکھا تھا یہ ۔۔۔۔۔
منہال اس کو یاد کرتے ہوئے خود سے بڑ بڑا یا۔۔۔
ہاں یہ مائشا کا ہی ہیں۔۔۔۔۔۔
منہال نے پیچھے مڑ کر ایک بار پھر مائشا پر ایک نظر ڈالی اور پھر بریسلیٹ کو دیکھا۔۔۔۔۔
کچھ سوچتے ہوئے مائشا کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔
**********************
ریسٹورینٹ کے اندر منہال کے آنے کے بعد کا منظر ع عام »»»»»👇
منہال کے جانے کے بعد ۔۔۔۔۔
شہزین ,شاہزیب اور صرفان آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
اور ان تینوں کے درمیان مائشا کو اپنا آپ بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
اُسکی ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسکے وجود کا اس دنیا میں کوئی معائنے ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔
اب تو اسکو اپنی یہ زندگی اپنے بابا کے جانے کے بعد بے مول سی لگنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے اس درد کو کسی سے بانٹ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔۔
اُسکا تھا ہی کون صرف دادو اور عالیان کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ 
وہ ہی تو دو شخص تھے جو اسکو ہمیشہ سپورٹ کرتے تھے۔۔۔۔۔۔
ورنہ تائی جان نے کوئی کسر نہیں چھوٹی تھی۔۔۔۔
لیکن کچھ عرصے پہلے ان دو شخص میں سے ایک شخص کی کمی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اور وہ شخص تھا ۔۔۔۔۔۔۔
عالیان ملک شاہ۔۔۔۔
ان دو شخصوں کے علاوہ ایک اور شخص تھا جو اسکو بہت محبّت کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
اور وہ تھے ملک احسان شاہ___!
ہاں وہی تو تھے جو اُسکے بابا کے جانے کے بعد باپ کی طرح اُسکے سر پر محبّت کا ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔۔
وہ بیٹھی ہوئی اپنی ماضی کو کھوج رہی تھی۔۔۔۔۔
جب صرفان کی نظر اُسکی پر پڑی۔۔۔۔
مائشا گاڑیاں آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔۔
کیا ہوا گڑیا ___؟
آپ پریشان کیوں لگ رہی ہے_______؟
صرفان نے بلکل اُسکے بابا کی طرح محبّت اور شفقت سے مائشا سے پوچھا ۔۔۔۔ 
صرفان کے اس طرح سے پوچھ نے اور مائشا نے پہلے ڈرتے ہووے شاہزیب اور شہزین کی طرف دیکھا۔۔۔۔
پھر ڈر سے اٹکی ہوئی سانس کو بے حال کرتے ہوئے ہاں میں گردن ہلدی۔۔۔۔ 
گڑیا آپ ایک کام کرے آپ کار میں جاکر بیٹھ جائے۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں لگتا گڑیا آپ یہاں اپنے آپ کو اچّھا فیل کر رہی ہیں۔۔۔۔۔
اس لیے آپ کار میں جا کر بیٹھ جائے۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی آپ کو ابھی زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔۔۔
صرفان نے مائشا کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اور پھر شاہزن سے اپنی بات کی تائید چاہی۔۔۔۔
کیوں بھائی میں ٹھیک بول رہا ہوں نہ۔۔۔۔۔۔
شہزین جو مایو کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
صرفان کے یوں پکارنے پر گڑ بڑا تے ہوئے صرفان کو دیکھکر اُسکے بات کی تائید کرتے ہوئے ایک ایک لفظ طنزیہ انداز میں مایو کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ہاں شیری تم صحیح بول رہے ہہو۔۔۔۔۔
اس کو ابھی زیادہ آرام کی ضرورت ہے۔۔۔۔
جاؤ مایو __!
تم جاؤ کار میں بیٹھ کر آرام کرو۔۔۔۔۔
ا
شہزین نے لفظ بہ لفظ چباتے ہووے مایو سے کہا۔۔۔۔
اتنا سن نہ تھا۔۔۔۔۔
کہ مائشا وہاں سے دوڑ نے کے انداز میں چلی گئی۔۔۔۔
لیکن شہزین نے جان بوجھ کر کار کی چابی مائشا کو نہیں دی۔۔۔۔۔
وہ آنکھوں میں نمی لیے نیچے گردن جھکائے ریسٹورینٹ سے باہر ہی نکلی تھی تب اُسکی ٹکّر بہت جور سے کیسی سے ہوئے تھی۔۔۔۔۔
***********************
مائشا _____!!!!
منہال نے کار کے پاس کھڑی ہوئی مائشا کو آواز دی ۔۔۔۔۔۔
مائشا جو کار کے پاس کھڑی ہوئی اپنی قسمت پر آنسو بہا رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے بابا کو بھی یاد کر رہی تھی جب اُسنے پھر سے وہی آواز سنی تو جلدی سے اپنے آنسوؤں کو پوروں سے چنا اور ڈرتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔
جیسے ہی مائشا نے پیچھے دیکھا تھا منہال کی نظر سیدھا اُسکی آنکھوں پر گئی تھی۔۔۔۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جو منہال سلمان شاہ کی دعا کو سن نے والے عرش بری نے دعا کو قبولیت کا شرف بخشا تھا۔۔۔۔۔
منہال سلمان شاہ جو پہلے ہی اس ڈری سہمی سی لڑکی کے چہرے کے نور اور اُسکے پردہ کرنے سے متاثر ہوا تھا۔۔۔۔۔
وہ اب ان آنکھوں میں کہیں کھو سا گیا تھا۔۔۔۔۔
منہال سلمان شاہ آج صحیح معائنوں میں اپنا دل کھو بیٹھ تھا۔۔۔۔۔۔۔
منہال کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگی تھی۔۔۔۔
آج پانچ سال بعد اسکو اپنے وجود میں ایک سکون سا ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
جو برسوں پہلے یہ ٹھنڈک یہ سکون کہیں کھو سا گیا تھا۔۔۔۔۔ 
نہ تو آج عورت زات کو دیکھ کر دل میں آگ کے شعلے بھڑک تھے اور نہ ہی سانس لینا مشکل ہوا تھا۔۔۔۔
اُسکے دل سے ایک دم یہ صدا آئی۔۔۔
یا اللہ___!
بے شک تو ساری دنیا کا کارساز ہے۔۔۔۔۔
منہال نے جلدی سے اپنی نظروں کا زاویہ بدلا۔۔۔۔
مائشا منہال کے ایسے دیکھنے پر اور بھی زیادہ خوف زدہ نظر آنے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو آپ گھبرائے مت میں آپ کو کچھ نہیں بولونگا۔۔۔۔۔
منہال مائشا کے ڈر کو محسوس کرتے ہوئے شائستہ لہجہ میں مایو سے بولا۔۔۔۔۔
جسے سن کر مایو کو ڈھارس سی ملی۔۔۔۔۔۔
اور ایک لمبی سانس لیکر اس نے اپنے آپ کا ڈر ختم کرتے ہوئے منہال سے بولی۔۔۔۔۔
بتائے ا آپکو مجھ سے کیا کام تھا_____؟؟
منہال یہ ہی تو چاہتا تھا کہ وہ و پیاری سی لڑکی کی اس سے ڈرے بنا کُچّھ تو بولے۔۔۔۔۔
منہال بولا مجھے آپ سے کُچّھ نہیں کہنا میں صرف آپکو آپکی امانت لوٹانے آیا ہوں جو شائد وہاں گم گر گئی تھی۔۔۔۔۔۔
منہال نے اُسکا بریسلیٹ اُسکے سامنے لہراتے کہا۔۔۔۔ 
مائشا اپنا بریسلیٹ دیکھتے ہی منہال کے ہاتھ سے جھپٹنے کے انداز سے لیتی ہوئی بولی ۔۔۔۔
ی یہ ا آپکو کہاں سے ملا___؟
منہال نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو بتایا۔۔۔۔
مایو اس بریسلیٹ کو دیکھ تے ہی بے اختیار ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب لاتے ہوئے منہال کو دیکھکر بولی۔۔۔۔۔۔
آج آپ کی وجہ سے میرا سب سے زیادہ قیمتی چیز آج مجھ سے دور ہو جاتی۔۔۔۔۔
صرف آپ کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔
اور منہال جو اُسکے لبوں کو ہلتے ہوئے دیکھ رہا تھا اس الزام پر فوراً سیدھا ہوا۔۔۔
کیا__؟
یہ یہ بریسلیٹ میری وجہ سے گم ہوجاتا____؟
یانی میری صرف میری وجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔
منہال نے بریسلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بار تصدیق کرنی چاہی۔۔۔۔۔۔
کیا پتہ سن نے میں ہی غلطی ہو گئی ہو_____؟
جو مائشا نے ہاں میں گردن ہلا کر اُسکی یہ بھی غلط فہمی بھی دور کر دی۔۔۔۔۔۔۔
اچّھا محترمہ_______!
آپ یہ الزام اتنے یقین کے ساتھ کیسے لگا سکتی ہے____؟
کیا آپ بتا سکتی ہیں_______؟
منہال نے مائشا کے چہرے کا طواف کرتے ہوئے بڑے ہی سوہنے انداز میں پوچھا۔۔۔۔۔۔
مائشا تو خود حیران تھی کی اُسنے یہ الزام کیسے لگا دیا۔۔۔۔۔۔
جس شخص سے ابھی تھوڑی دیر پہلے تک اتنی خوفزدہ سی تھی۔۔۔۔۔
اب اتنی جلدی بنا ڈرے اتنا بڑا الزام اس ہی شخص پر کیسے لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔
شائد یہ منہال کے شائستہ لہزے کا ہی اثر تھا۔۔۔۔۔۔
جس نے اس کیا ڈر اسکا خوف کہیں گم سا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔
مائشا نے ابھی بول نے کے لیے لب ہی کھولے تھے۔۔۔۔۔
جب اسکو سامنے سے شاہزیب آتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔۔۔
جو ڈر جو خوف کہیں گم سا ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
اس ہی ڈر کو لوٹ کر آنے میں سیکنڈ بھی نہیں لگا۔۔۔۔
مائشا خوف زدہ ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔
ا ا آپ جائے یہاں سے۔۔۔۔۔
پلیز جائے ۔۔۔۔۔
منہال جو اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہا تھا مائشا کو اس طرح ایک دم سے خوف زدہ ہوئے دیکھا تو پریشان ہوتے ہووے پوچھا۔۔۔۔۔۔
ارے میں نے ایسا بھی کیا پوچھ لیا جو آپ اتنی ڈر رہی ہیں________؟؟
بھئی صرف آپ کے الزام کی وجہ ہی تو پوچھنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اس میں اتنا ڈر نے کی کیا بات________؟
لیکن مائشا اُسکی باتوں پر دھیان دیتی تو کُچّھ جواب بھی دیتی۔۔۔۔۔۔
اُسنے پھر سے منہال کو جانے کے لیے کہا۔۔۔۔۔۔
ا آپ جائے اللّٰہ کے واسطہ۔۔۔۔ 
و وہ یہیں پر آ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کون___؟
منہال نے نہ سمجھ نے والے انداز میں مائشا سے پوچھتے ہووے گردن پیچھے گھما کر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں سے شاہزیب آ رہا تھا پھر مائشا کی طرف۔۔۔۔۔
اس طرح اس لڑکی ان لوگوں کو دیکھ کر گھبرا جانا منہال کو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔۔۔
لیکن مائشا کی آنکھو کو دیکھ کر جو ابھی بلکل رونے کی تیاری میں تھی۔۔۔۔۔۔
پوچھنے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے بولا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں _____!!
اور وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا لیکن ساتھ میں مائشا سے جڑی سوچوں کی پوٹلی بھی ساتھ میں لے گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

***********************

جاری

   8
3 Comments

नंदिता राय

08-Sep-2022 08:05 PM

👏👌

Reply

Asha Manhas

08-Sep-2022 12:38 PM

ماشاءاللہ بہت زبردست لکھا ہے ❤️❤️

Reply

Milind salve

23-Mar-2022 11:56 PM

Bahut khoob

Reply